Artical

ابھی جی ایچ کیو کی دھول بیٹھی نہ تھی کہ پے در پے لاہور ہلا مارا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟ اخباری مضامین تا ٹیلی ویژنی گفتگوئیں بالعموم اس تجزیاتی Uniformity سے محروم ہیں جو ایک واضح نتیجے تک پہنچنے میں مدد دے۔ تضاد بیانی مسئلے کو کئی گنا الجھا دیتی ہے۔ ہم آج اس کیفیت میں گرفتار ہیں جسے نبیﷺ نے پہلے ہی بیان فرما دیا تھا۔ وہ طویل حدیث جو ہماری آج کی عملی حالت زار کو بیان کرتی ہے۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر کو چھوڑ دینا۔ اخلاقی حالت کا بدترین بگاڑ‘ جہاد کا چھوڑ دینا۔ معروف کا منکر اور منکر کا معروف بن جانا (خیروشر کے پیمانے الٹ جانا) اسکے نتیجے میں یہ تنبیہ کہ اللہ ایسا فتنہ برپا کر دیگا کہ بڑے بڑے دانشور چکرا جائیں گے۔
راقمہ دانش و بینش پر دسترس کا تو کوئی دعویٰ نہیں رکھتی۔ صرف اتنا ہے کہ گھپ اندھیرے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صراط مستقیم تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے کیونکہ اس سے ہٹنے میں ہی سارے گڑھے‘ کھڈے‘ کھائیاں‘ عمیق گہرائیاں دنیا و آخرت میں مضمر ہیں۔ ذرا اکیسویں صدی کا خمار اتار دیجئے۔ ہمارا رب تمام صدیوں کا مالک ہے۔ صدی ساتویں ہو یا اکیسویں یا اٹھائسیویں ساری صدیوں کا مالک وہی ہے۔
اے سر خاک فنا ‘ رینگنے والے کیڑے
یہ جو مستی ہے تجھے ہستی کی
اپنی دہشت سے بھری بستی کی
اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھلے
کیسی حالت ہے تری پستی کی
اور پھر اس کی طرف دیکھ کہ جو
ہے زمانوں کا جہانوں کا خدا
خالق ارض و سما حئی و صمد
جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے
مثل دربان ازل اور ابد
جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حد
اور پھر سوچ اگر
وہ کبھی دیکھے تجھے!!
یقیناً وہ ہمیں ہماری پستیوں میں رلتا دیکھ رہا ہے جہاں ہم نے پہلے اللہ کو بھلایا نتیجے کے طور پر اپنا آپ بھول گئے دیوانے ہو گئے (الحشر) اس دیوانگی ہی نے ملک خداداد پاکستان کو اس حال پر پہنچایا کہ ہمدردی کا ووٹ دیکر دونوں ہاتھوں سے نوٹ بٹورنے والے بلوں کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھا دیا۔ ملک کے سارے ادارے اپنے ہاتھوں تباہ کئے۔ قوم کے سارے مالی‘ انسانی وسائل امریکہ کی صلیبی جنگ میں ہم نے خود اپنے ہی خلاف جھونک دئیے۔ مت ڈھونڈئیے اپنے دشمن بھارت اسرائیل امریکہ میں‘ ہمارے پے در پے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے۔ خاموش اپوزیشن کی موجودگی میں قومی ملی مفادات پر ذاتی جماعتی عافیت کو ترجیح دینے والی جماعتوں کے وجود بابرکات ہی میں بے شمار کلہاڑیاں ہمارے پیروں پر برس رہی ہیں۔ ’را‘ کو کیا پڑی جب ہم اپنی ’را‘ خود ہیں۔ وہ تو خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔
آپکی معاشی بربادی کیلئے قحط کے سامنے ڈیم در ڈیم بنا کر بھارت نے رکھ دئیے۔ آپ اپنا آپ بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر جب بے حال ہو جائیں تو (خاکم بدہن) خود ہی دشمنوں کیلئے تر نوالہ ہونگے۔ جب پوری دلجمعی سے امریکہ کو اپنے دارالخلافہ میں ایک چھوٹا پینٹاگون بنانے کی اجازت آپ نے دیدی تو اب بلبلا‘ بلبلا کر ہر داڑھی والے پر چڑھ دوڑنے سے پاکستان کی عمر کیا لمبی ہو جائیگی؟ ہوش کے ناخن لیجئے۔ جذبائیت‘ اور نسل در نسل گہری اتاری گئی۔ ’مولوی دشمنی‘ کے گڑھے سے ذرا نکل کر تو دیکھئے۔ شہر کو سیلاب لئے جا رہا ہے۔
بات سادہ سی ہے لال مسجد جامعہ حفصہ کے ڈیڑھ ہزار طلبہ طالبات پر جو قیامت ڈھائی۔ انکے ساتھ انکے ورثاء لواحقین اگرچہ زندہ درگور ہو گئے لیکن موجود ہیں۔ پے در پے (مستعار امریکی تکبیر کیساتھ) پورے قبائلی علاقے دربدر کر دئیے۔ بتیاں ویران کر دیں۔ گھر‘ مسجدیں‘ مدرسے ڈھا دئیے (وہاں سو فیصدی نمازی آبادیاں ہیں) ہزاروں نوجوان جیلوں میں ٹھونس دئیے۔ وہ خون جو جعلی وڈیو سوات(جو جھوٹ کا پلندہ تھی) پر تو ابل ابل کر امڈ رہا تھا۔ (جاری ہے)
قرآن کے اوراق اور حدیث کی کتب‘ کٹی انگلیاں‘ ٹوٹی چوڑیاں‘ بکھری مسلی چپلیں دیکھ کر اس میں ارتعاش کی ایک لہر بھی نہ اٹھی؟ ایک سسکی‘ ایک آہ‘ نہ نکلی؟ جبین شکن آلود نہ ہوئی؟ جناب۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو شہید بہن کا غم تو بھول جائیگی۔
قرآن کی بے حرمتی‘ صلیبی خنزیر خوروں کی محبت اور ملک اجاڑنے میں انکی معیت برداشت نہیں کریگی۔ دہشتگردی کی اس جنگ نے ہمیں بالکل امریکہ جیسا کر دیا ہے۔ جیسے وہ عراق‘ افغانستان کے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مار رہا ہے ان کا دکھ درد سمجھنے سے عاری ہے۔ واشنگٹن‘ لندن کی ’حرمت تو بہت ہے لیکن بغداد‘ قندھار خون میں نہلا دئیے جانے میں کوئی عار نہیں عین اسی ذہنی کیفیت سے اب کالے بابو ملک عزیز پاکستان میں بڑے بڑے شہروں کے عالیشان محلات اور فائیو سٹار دفاتر میں بیٹھ کر غریب‘ سادہ‘ ایمان والے قبائل کے خون کو سستا جان رہے ہیں۔ مار ڈالو‘ بھون ڈالو کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس آٹھ سالہ جنگ نے نہایت عاقبت نااندیشی کیساتھ وہی لہو ہمیں بھی بگا دیا ہے۔ یہ اٹھ اٹھ کر دیوانہ وار حملہ کرنیوالوں پر آپ نے اپنا خون اسی طرح حلال کر لیا ہے جس طرح آپ نے انکی بستیوں کو خون میں نہلانا جائز جانا تھا۔ اسکے پیچھے ’را‘ ’موساد‘ نہ تلاش کیجئے۔ اپنے ہاتھوں پر لگا لہو دیکھئے۔ ہزاروں لاپتہ نوجوانوں کی عقوبت خانوں سے اٹھتی ’چیخوں‘ آہوں‘ کراہوں اور انکے گھر والوں کے بے قرار شب و روز بھی کسی چینل پر دکھائیے‘ سنوائیے‘ یہ عین وہی سب کچھ ہے جو امریکہ نے مسلمانوں کیساتھ کیا اور انکی خواہش‘ ایما‘ ڈالروں پر ہم نے اپنے ہی بیٹوں‘ بیٹیوں کیساتھ کیا۔ صحافیوں کی قطاروں میں سے کوئی ایک بھی جارج گیلوے‘ رابرٹ فسک جیسا حق گو نہ ہوا۔ کافر سپاہیوں کے ضمیر بلبلا اٹھے اور انہوں نے امریکہ کے خوبصورت دوغلے چہرے کا نقاب اتارا سچ بولا۔ ہمارے ہاں جگر پاش مظالم پر کوئی بھی نہ تڑپا۔ کوئی بھی نہ بولا؟ ملک ڈوب رہا ہے۔ کوئی ’مولوی دشمنی‘ کے بدلے چکانے پر کالم در کالم لکھنے پر مامور ہے۔ کوئی اپنے ادارے سے وفاداری نبھا کر داد طلب نظروں سے مڑ مڑ کر ہم وطنوں کے لہو میں ڈوبے ہاتھوں کو نظرانداز کئے شاباش کا طلبگار ہے۔ ہمیں سچ بولنا ہو گا۔ سچ لکھنا ہو گا۔ سچ چھانپا ہو گا۔ قوم سباکی کہانی ہم پر صادر ہونے کو ہے۔ ہم اب بھی حقیر مقاصد کی تسکین میں گم ہیں؟ وزیرستان پر آپریشن کی دیر ہے امریکہ اندر سے نقب لگانے کی تیاری پوری کر چکا ہے۔ وزیرستان تہ و بالا کرکے آپ فاتح نہیں ہونگے۔ کشتی میں پہلے ہی کافی پتھر بھر رکھے ہیں یہ آخری پتھر ہو گا۔ اسکے بعد ہمارا کوئی دشمن باقی نہ رہے گا‘ سوائے امریکہ اور بھارت کے!
ایسے حادثات میں میڈیا کو احتیاط سکھائیے۔ ایک چینل پر افواہ چھوڑ دی گئی ’تین عورتیں دہشت گردوں کیساتھ ہیں‘ پھر کیا تھا بلا تحقیق سب نے ویڈیو سوات سٹائل جگالی شروع کر دی۔ ذمہ دار لکھنے والوں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ کالموں میں بھی لکھ ڈالا۔ ہمیشہ کی طرح یہ صرف بھس کی چنگاری تھی۔ نتیجہ معلوم ہے؟ اسلام آباد میں فوراً ایسے واقعات کی ابتدا ہو گئی کہ پولیس کے سپاہی نے عفت و آب باپردہ عورت کو روک کر تلاشی دینے کو کہا۔ اب آپ پر مقصد واضح ہو گیا ہو گا اس چنگاری کے چھوڑے جانے کا؟ یہ بلا سبب نہیں ہے۔ داڑھیوں کیلئے تو جواز بے شمار ہیں۔ عورت کا پردہ اب نیا ہدف ہے۔ اس کیلئے مواقع کی تلاش ہے۔
جان لیجئے یہ بہت بڑی آگ بھڑکائے گی۔ یہ ماضی کا ترکی نہیں ہے۔ یہ مروہ شربینی جیسی ایمانی غیرت رکھنے والی خواتین کا ملک ہے۔ جیسے گلاب کی خوشبو ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہے۔ ایمان کی غیرت مصر اور پاکستانی خمیر میں ایک ہی ہو گی۔ نئی حماقت نہ کیجئے گا۔ جھاڑ کا نیا کانٹا آپکے خار در خار پیرہن سے لپٹ جائیگا۔
ملک عزیز میں پورے شعور کیساتھ بے پردگی سے پردہ کی طرف لوٹنے والی لاکھوں خواتین ہیں۔ خونخوار نظروں سے حجاب کو دیکھنے کی حماقت نہ کوئی کر بیٹھے۔ اصل مسائل سے نمٹئے۔ اصل محاذ کی طرف لوٹئے۔ وہ امریکہ اور بھارت ہے۔ صلیبی جنگ کی دلدل سے نکلنے میں پاکستان کی بقا مضمر ہے۔
.

0 comments:

Post a Comment