دہشتگردی کا اسلام سے تعلق نہیں،امہ متحد ہو جائے:خطبہ حج

صالح قیادت کے اقتدار میں آنے تک حالات نہیں بدلیں گے، علماء ضعیف العلمی کی بنیاد پر فتوے صادر نہ کریں
مسلمان دین سے وابستہ ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی، مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کا خطبہ حج
میدان عرفات سے (اے پی پی) سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے امت کے سربراہان مملکت پر زور دیا ہے کہ وہ محروم طبقات کی فکر کریں اور مظلومین کو ان کے حقوق دلانے کیلئے اقدامات کریں، صالح اور امانت دار قیادت کے اقتدار میں آنے تک ہمارے حالات نہیں بدلیں گے، نوجوان خود کو دین کی دولت سے مالا مال کریں اور اخلاقی انحطاط سے بچیں، دہشت گردی بہت بڑا چیلنج ہے، اس کے ذریعے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے، مسلمان رنگ و نسل، زبان اور جغرافیہ کی بنیاد پر اختلافات فراموش کرکے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں، علماء مسلمانوں کی رہنمائی کریں اور ضعیف العلمی کی بنیاد پر فتوے صادر نہ کریں، امت کے ارباب اقتدار اور اہل ثروت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض پہچانیں اور امت کی بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو نکالنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لائیں، مسلمان دین کے ساتھ اخلاص سے وابستہ ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ جمعرات کو مسجد نمرہ سے خطبہ حج دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طرح طرح کی بدعات اور شرک کو عام کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان توحید حقیقی سے ہٹ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے ضعیف احادیث اور روایات کو عام اور اسلام کے حقیقی پیغام کو دھندلا کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ اﷲ کے رسول کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے میں ہے۔ مفتی اعظم نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح اپنے دین اور اپنے نبی کی سنت کا تحفظ کیا ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے شہر امین مکہ اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ مسلمان نوجوانوں کو ان کے دین اور ثقافت سے دور کر رہے ہیں تاکہ ہمارے نوجوان دین کی دولت سے محروم ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا کی اس سازش اور پروگرام کے بارے میں ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی قوت کو انہیں تباہ و برباد کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا بڑا چیلنج دہشت گردی ہے، اس کے ذریعے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ اسلام امن و محبت کا دین ہے، لہٰذا دہشت گردی کی اس وباء اور مسئلہ سے ہمیں نمٹنا ہے۔ ہمیں اس سے کسی بھی قسم کی مصالحت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ زبان اور جغرافیے کی بنیاد پر باہمی اختلافات اتحاد و یکجہتی اور ڈائیلاگ کے ذریعے ختم کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مسلمان دین کے ساتھ اخلاص سے وابستہ ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی، مستقبل اسی دین کا ہے۔ اسلامی اقدار میں اتنی قوت موجود ہے کہ وہ دنیا کی ہر طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین کی امانت کو پہاڑوں اور زمین نے اٹھانے سے انکار کیا تو انسان نے یہ بوجھ اٹھایا۔ مفتی اعظم نے اپنے خطبہ میں کہا کہ ہمارا جینا اور مرنا اﷲ ہی کیلئے ہے، ہمیں ہر قسم کے توہمات، دھوکے اور گمراہیوں سے دین ہی نجات دلا سکتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے ایمان کا یہ بھی حصہ ہے کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ نبی کریمؐ کو اپنے تمام معاملات کے اندر جج بنائیں اور آپ کے ارشادات کے سامنے سر جھکائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر رکن اسلام اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ معاشرے کے مفلوک الحال طبقات کو ساتھ لے کر چلیں اور اپنے مال کے اندر انہیں بھی حصہ دار بنائیں۔ ہمیں رنگ و نسل، زبان اور جغرافیے کے اختلافات فراموش کرکے لا الٰہ الا اﷲ پر اکٹھا ہونا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زنا، شراب اور دیگر معاشرتی برائیوں کے فروغ کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر امیر اور غریب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ دین کی امانت پوری کریں مگر خاص طور پر امت کے ارباب اقتدار اور اہل ثروت افراد جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ان پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نازک دور میں اپنے فرائض پہچانیں اور امت کی بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو نکالنے کیلئے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ امت کے پاس افرادی قوت اور وسائل کی کمی نہیں ہے، ہمیں یہ صلاحیتیں دوسروں کو دینے کی بجائے اپنے لئے استعمال کرنی چاہئے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کے راستوں کی رکاوٹیں دور کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ امت کے اخبارات، ٹیلی ویژن، ریڈیو اور دیگر نشریاتی اداروں کو چاہئے کہ دین کے تشخص، ثقافتی اقدار اور روایات کو نئی نسل تک منتقل کریں۔ انہوں نے کہا کہ امت کے دانشوروں اور اہل علم پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان تک جو علم منتقل ہوا ہے وہ اگلی نسل تک وہ پہچائیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء پر فرض ہے کہ وہ دعوت دین کے فریضہ سے غافل نہ ہوں تاکہ دین اگلی آنے والی نسلوں تک پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس امت کے مفتیوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ دین کی گہرائی تک پہنچ کر فتویٰ دینے کا فریضہ ادا کریں۔ کچے پکے علم اور دین کی گہرائی تک پہنچے بغیر فتوے صادر نہ کریں اور علم الفتاویٰ کے تقاضے پورے کریں۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں دین کی روح کو نظر انداز نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ دین کا ماضی کی عظمت رفتہ سے مقابلہ کیا جائے تو آج صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے روابط بہتر کریں، برداشت پیدا کریں اور اپنے تجربات ایک دوسرے کو منتقلی کریں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن ہماری پکڑ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت مختلف قسم کی آوازیں، پروگرام اور تنظیمیں ہیں جن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اقدار سے بیگانہ کر دیا جائے۔ ہمیں دین اور اقدار سے ٹکرانے والی آوازوں کو مسترد کر دینا چاہئے۔ ایسے لوگوں کی معاشرے کے اندر حوصلہ افزائی کی جائے جو سچے اور امانت دار ہیں اور لوٹ کھسوٹ میں مبتلا نہیں ہیں۔ جب تک صالح اور امانت دار قیادت ہمارے معاشروں میں نہیں آئے گی ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں امت کے سربراہان مملکت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ظلم حد سے بڑھ چکا ہے۔ انہیں محروم طبقات کی فکر اور مظلومین کو ان کے حقوق دلانے چاہئیں، اﷲ ظلم پسند نہیں کرتا۔ اگر انہوں نے اس سے غفلت برتی تو انہیں اﷲ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

0 comments:

Post a Comment