بلےبازوں کو آؤٹ کرنا آسان تھا: ڈی سلوا

سری لنکن کرکٹ بورڈ کےسربراہ سوما چندرا ڈی سلوا کہتے ہیں کہ ان کے لیے کسی بیٹسمین کو آؤٹ کرنا ملکی کرکٹ معاملات نمٹانے سے زیادہ آسان کام تھا۔

67 سالہ سوما چندرا ڈی سلوا اس وقت سری لنکن کرکٹ کی عبوری کمیٹی کے سربراہ ہیں لیکن دنیا انہیں ایک لیگ اسپنر کے طور پر زیادہ جانتی ہے جو اس ٹیم میں شامل تھے جو سری لنکا کی طرف سے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلی۔

سری لنکن کرکٹ بورڈ کے دفتر میں جب میں نے سوماچندرا سے بات کی تو میں نے ان سے چیئرمین سری لنکن کرکٹ کے بجائے ایک لیگ سپنر کے طور پر ماضی میں جھانکنے کی درخواست کی تو کچھ ہی دیر میں وہ اس دور کی یادوں میں کھوگئے۔

سوما چندرا ڈی سلوا کہتے ہیں جب 1982 میں ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تھی تو انہیں اندازہ تھا کہ ظہیر عباس ماجد خان جاوید میانداد اور وسیم راجہ جیسے ورلڈ کلاس بلے بازوں کو بولنگ کرنا بہت بڑا چیلنج ہوگا لیکن سری لنکا کی ٹیم فیصل آْباد ٹیسٹ جیتنے کے بہت قریب آگئی تھی۔اس میچ میں انہوں نے نو وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وہ فیصل آْباد ٹیسٹ نہ جیتنے کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔

سوماچندرا ڈی سلوا کو ابھی تک اس بات کا بھی افسوس ہے کہ سری لنکا کو ٹیسٹ رکنیت تاخیر سے ملی اور وہ اس کے بعد زیادہ عرصہ نہ کھیل سکے لیکن اس سے پہلے وہ غیرسرکاری ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کر چکے تھے اور ان کی وکٹوں کی تعداد دو سو سے زائد تھی اگر سری لنکا کو ٹیسٹ کھیلنے کا استحقاق پہلے مل جاتا تو آج ان کا نام بھی زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولرز میں نظر آتا۔

سوما چندرا نے 12 ٹیسٹ میچوں میں سری لنکا کی نمائندگی کی اور 37 وکٹیں حاصل کیں۔

کس بلے باز کو آؤٹ کرنا مشکل لگا؟ اس سوال پر سوما چندرا ڈی سلوا کہتے ہیں کہ پاکستان کے دورے میں جاوید میانداد آسانی سے ہاتھ آنے والے بیٹسمین نہیں تھے۔ اس دور کے دیگر بلے بازوں میں ظہیرعباس، وسیم راجہ، سنیل گاوسکر، کلائیولائیڈ، ویوین رچرڈز اور جیف بائیکاٹ کے سامنے بولنگ کرنا آسان نہ تھا لیکن انہوں نے ان کی وکٹیں بھی حاصل کیں۔ وہ اٹیکنگ لیگ سپنر تھے اور گگلی کا استعمال بھی اچھی طرح کرتے تھے۔

آپ کے بعد سری لنکن ٹیم میں کوئی لیگ سپنر نہیں آیا اور پھر زمانے نے مرلی دھرن کا جادو دیکھا؟ اس سوال پر سوماچندرا ڈی سلوا کہتے ہیں کہ ان کے بعد اشوکا ڈی سلوا اور اپل چندانا کی شکل میں اچھے لیگ سپنرز آئے لیکن مرلی نے اپنی جگہ خوب بنائی وہ ایک خاص قسم کے بولر ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ مرلی کے جانے کے بعد سری لنکا کو بہت جلدی ان ہی جیسا زبردست بولر مل سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اورمرلی تیار کرنا آسان نہیں۔

سوما چندرا ڈی سلوا سے جب میں نے پوچھا کہ اپنے دور میں بلے بازوں کو آؤٹ کرنا زیادہ مشکل تھا یا سری لنکن کرکٹ کے معاملات چلانا؟ انہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتظامی معاملات آسان نہیں۔ جبکہ بلے باز کی وکٹ حاصل کرنا آسان تھا۔

ڈی سلوا کہتے ہیں کہ سری لنکا میں سکول کرکٹ کا سیٹ اپ منظم ہے کرکٹ اکیڈمی بھی کام کر رہی ہے لہذا باصلاحیت کرکٹرز سامنے آتے رہتے ہیں۔

سوماچندرا ڈی سلوا سے جب میں نے یہ پوچھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ یہ شکوہ کرتے ہیں جب ورلڈ کپ کے میچز پاکستان سے واپس لیے جارہے تھے تو ’ایشیائی میزبان بھائیوں‘ بشمول سری لنکن کرکٹ بورڈ نے پاکستان کی حمایت نہیں کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں ہے۔

انہوں نے ذاتی طور پر پاکستان کی حمایت کی ان سے جو کچھ ہوسکتا تھا وہ انہوں نے کیا۔پاکستان سے سری لنکا کے بہت اچھے تعلقات ہیں اس لیے وہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت کرتے ہی جبکہ سری لنکن کرکٹ بورڈ سے بھی سو فیصد حمایت پاکستان کو ملی لیکن یہ فیصلہ آئی سی سی کا تھا کہ سکیورٹی کی وجہ سے پاکستان میں میچز نہیں ہوسکتے ۔

سوماچندرا ڈی سلوا کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے 2011 ورلڈ کپ کے لیے تیار ہے انفرا اسٹرکچر کو بہترکیا جارہا ہے جبکہ ٹیم بھی ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں اس سال بارہ ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیل رہی ہے ۔

سری لنکا ورلڈ کپ کے بارہ میچوں کی میزبانی کرے گا۔

0 comments:

Post a Comment