پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اور امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن سے ملاقاتیں کی ہیں۔
بانکی مون سے صدر زرداری کی ملاقات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند ولی یار بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات تیس منٹ جاری رہی۔
اس سے قبل صدر آصف علی زرداری نے امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کےدوران صدر آصف علی زرداری نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو اگلے سال پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ تاہم بل کلنٹن کے پاکستان کے دورے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
یہ بات بعد میں صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے صدر زرداری کے نیویارک میں قیام کے پہلے دن کی سرکاری مصروفیات کے متعلق پریس کو بریفنگ کے دوران بتائي۔
صدر آصف علی زراری اپنے وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالا چونسٹھیوں اجلاس میں شرکت کرنے آئے ہیں۔
صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے صدر آصف زرداری کی پیر کے تمام دن کی سرکاری مصروفیات پر صحافیوں کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری جنرل بانکی مون کیساتھ ملاقات میں علاقائي صورتحال اور خاص طور شورش زدہ صوبہ سرحد میں شدت پسندی کے خلاف جنگ، آئي ڈی پیز کی آبادکاری اور متاثرہ علاقوں کی از سر نو تعمیر پر بات چیت ہوئي۔ پاکستان بھارت تعلقات بھی پر بھی بات جیت ہوئي اور بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقاتی کمیشن کے پر بھی بات چیت ہوئی۔
صدر کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ صدر آصف زرداری اور سابق صدر بل کلنٹن کے درمیاں ملاقات کے دوران صدر کلنٹن کی کلنٹن گلوبل انیشیٹو تنظیم کی طرف سے پاکستان میں پانی کی قلت کا سامنا کرنے کے لیے تیرہ درمیانے اور چھوٹے سائیز کے ڈیم تعمیر کیے جائيں گے جن میں پانچ بلوچستان میں، دو پنجاب میں، دو صوبہ سرحد میں اور چار سندہ میں ہوں گے۔
جب فرحت اللہ بابر سے پوچھا گیا کہ کیا ان ڈیموں میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی شامل ہوگا تو انہوں نے اسکا جواب نفی میں دیتے ہوئے نے کہا کہ یہ تمام درمیانے اور چھوٹے درجے کے ڈیم ہوں گے۔
صدر کے ترجمان نے کہا کہ خواتین کو اقتصادی و سماجی طور خود مختار کرنے کے لیے ان مجوزہ ڈیموں کے ذریعے خواتین کو زمینیں دی جائيں گي جو ان ڈیموں کے ذریعے سیراب کریں گي۔
صدر زرداری جو پچیس ستمبر کو جنرل اسبملی کے اجلاس سے خطاب کریں گے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ہٹ کر چوبیس ستمبر کو فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے اجلاس میں بھی شرکت کر رہے ہیں جسکی مشترکہ میزبانی امریکہ اور برطانیہ کر رہے ہیں۔
صدر زرداری منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے ملاقات کر رہے ہیں اور اسکے علاوہ وہ صدر بل کلٹنن کی طرف سے قائم کردہ کلنٹن گلوبل انیشٹیو کی پانچـویں سالانہ اجلاس میں بھی شرکت کر رہے ہیں جس میں کوئی ایک سو سے زیادہ سے سربراہان ممالک اور وزراۓ اعظم کے علاوہ نوبل پرائيز یافتہ شخصیات شرکت کرر ہییں جس میں بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس بھی شامل ہیں۔
صدر زرداری ایک فائونڈیشن کی طرف سے بینظیر بھٹو کو انکی زندگي کے بعد انکے کارناموں کے اعتراف میں دیے جانیوالے ایک اعزاز کی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ یہ اعزاز بینظیر بھٹو کی خالہ بہجت ہریری وصول کریں گي۔ بہجت ہریری بیگم نصرت بھٹو کی رشتے میں بہن ہیں۔
یہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا چونسٹھواں اجلاس ہے جس میں صدر زرداری سمیت دنیا کے ایک سو بیانوے رکن ممالک شرکت کر رہے ہیں جن میں چھیاسی سربراہان ممالک اور تیس سے زائد وزرائے اعظم شامل ہیں۔
جنرل اسمبلی کا یہ ہونے والا اجلاس اس لیے بھی اہم ہے اس میں امریکہ نے پہلے ہی کہا ہے کہ اس کا فوکس پاکستان افغانستان اور شدت پسندی کے خلاف عالمی اقدامات ہونگے۔ جبکہ اس سے ہٹ کر صدر باراک اوبامہ منگل کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان ملاقات ملاقات کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں۔
جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات کے بعد ميڈیا سے مختصر بات چیت میں جب ایک صحافی کے سوال کہ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیاں بھی اس موقع پر ملاقات ہوگی تو موقع پر موجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ’ہمیں مثبت توقع رکھنی چاہیے۔‘ تاہم صدر یا وزیر خارجہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیاں سیکرٹری سطح سے آگے کی ملاقاتوں کے امکان کے متعلق جوات نہیں دیا۔
پیر کے روز اگر چہ اقوم متحدہ میں عید الفطر کی تعطیلات تھیں لیکن سیکرٹری جنرل بانکی مون صدر زرداری سمیت کئي ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتوں میں مصروف رہے۔
مینہیٹن نیویارک میں اقوام متحدہ سمیت کئي علاقوں میں سخت سیکیورٹی ہے کیونکہ یہاں جنرل اسبلی میں شرکت کرنے والے سربراہان قیام کیے ہوۓ ہیں اور نقل و حرکت رکھتے ہیں۔ اقوام متجدہ سے متصل فرسٹ ایونیو اور دو چند گلیوں کو عام لوگوں کی ٹریفک کیلیے بندر کردیا گیا ہے۔ لیکن نیویارک کے عوام یہ تجربہ ہر سال ستمبر میں کرتے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ سے باہر سینکڑوں قوموں کے ہزاروں لوگ اور کئي تنظمیمیں اپنی حکومتوں کی مخالفت او رحق میں مظاہرے منظم کرتے ہيں۔
0 comments:
Post a Comment